تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی । عید سعید فطر اسلامی اعیاد میں سے ایک ہے۔ جسے بلا تفریق مذاہب و فِرَق تمام مسلمان مناتے ہیں۔
یہی وہ عید ہے جس میں اللہ نے پنجتن پاک کی ایک عظمت کو دنیا کےسامنے پیش کیا ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک سال عید سے قبل امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں عرض کیا کہ اہل مدینہ کے بچے عید میں نئے کپڑے پہنیں گے اور زینت کریں گے ۔ لیکن ہمارے پاس نیا لباس نہیں ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: پیارو! تمہارے کپڑے درزی کے یہاں ہیں جب وہ لے آئے گا تو تم بھی پہن لینا۔
کئی دن گذر گئے یہاں تک کی شب عید آ گئی تو دونوں شہزادے دوبارہ اپنی مادر گرامی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے مطالبہ کی تکرار کی ۔ اگرچہ شہزادیؑ نے دوبارہ وہی جواب دیا کہ تمہارے کپڑے درزی کے یہاں ہیں لیکن بچوں سے دوبارہ لباس کا مطالبہ سن کر رنجیدہ بھی ہوئیں۔
جب رات کی تاریکی پھیل گئی تو اچانک کسی نے دق الباب کیا ۔ بی بیؑ نے پوچھا کون ؟ تو جواب آیا کہ اے بنت رسولؐ! درزی ہوں کپڑے لایا ہوں۔ آپؑ نے دروازہ کھولا اور اس سے تھیلی لے کر گھر میں تشریف لے آئیں ۔ جب تھیلی کھولی تو کیا دیکھا کہ اس میں دو کرتے، دو پاجامے ، دو ردا، دو عمامے اور دو جوڑی جوتے ہیں۔ شہزادی بہت خوش ہوئیں ، آپؑ کو قلبی مسرت ہوئی امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے پاس آئیں اور انہیں جگا کر فرمایا: تمہارے لباس آ گئے۔
اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے دونوں نواسوں کوپیار کیا ، گلے لگایا اور اپنی بیٹی سے مخاطب ہوئے کہ بیٹی! تم نے درزی کو دیکھا ؟ بی بی ؑ نے جواب دیا : ہاں ! بابا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیٹی وہ درزی نہیں تھا بلکہ جنت کا خزانچی تھا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: بابا ! آپؐ کو کس نے خبر دی تو حضورؐ نے فرمایا: بیٹی! اس سے پہلے کہ وہ واپس آسمان پر جاتا میرے پاس آیا اور مجھے پورے واقعہ سے آگاہ کیا۔
(بحار الانوار، جلد ۴۳، صفحہ ۲۷۱)
مذکورہ واقعہ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے نزدیک اہلبیت علیہم السلام کی کیا شان و منزلت ہے کہ اگر بضعۃ المصطفیٰ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کوئی بات کہہ دیں تو اللہ اسے سچ کر دکھا تا ہے اور اگر حسنین سبطین کریمین علیہما السلام نے کوئی خواہش کی تو اللہ اسےضرور پورا کرتا ہے چاہے جنت کے خزانچی کو درزی ہی کیوں نہ بنانا پڑے۔
یکم شوال کو عید منانا کسی علاقہ یا سماج کی رسم نہیں ہےبلکہ حکم پروردگار ہے ۔ اس دن کو اللہ نے عید کا دن مقرر کیا ہے جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے خطبہ عید الفطر میں فرمایا: ’’ألا و إنَّ هذا اليَومَ يَومٌ جَعَلَهُ اللّه ُ لَكُم عِيدا و جَعَلَكُم لَهُ أهلاً ، فَاذكُرُوا اللّه َ يَذكُركُم وَ ادْعُوهُ يَستَجِب لَكُم ‘‘۔ جان لو کہ آج کے دن کو اللہ نے تمہارے لئے عید کا دن قرار دیا ہے اور تمہیں اس کا اس کا اہل بنایا ہے (کہ آج تم عید مناؤ) لہذا اللہ کو یاد کرو تا کہ وہ تمہیں یاد رکھے، اس سے دعا کرو تا کہ وہ دعا مستجاب کرے۔
( من لايحضرہ الفقيہ ، ج 1 ، ص 517 )
مولا علیؑ کے کلام سے واضح ہو گیا کہ اللہ نے اس دن کو مسلمانوں کے لئے عید کا دن قرار دیاہے لہذا عید منانا بندگی پروردگار اور اس سے رو گردانی نافرمانی ہے۔
لیکن عید کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان یاد خدا سے غافل ہو جائے بلکہ عید کے دن انسان زیادہ سے زیادہ اللہ کو یاد کرے تا کہ خدا بھی اسے یاد رکھے۔ اور جب انسان اللہ کی یاد میں ہوگا تو اسکی اطاعت میں ہو گا گناہ سے دور ہو گا۔ جیسا کہ امیرکائناتؑ نے فرمایا:
ہر وہ دن جس دن اللہ کی نافرمانی نہ ہو وہ دن عید کا ہے۔
(نہج البلاغہ)
امیرالمومنین علیہ السلام نے اسی خطبہ عید میں فرمایا:
اپنے فطرہ کو ادا کرو، یہ تمہارے نبی ؐکی سنت اور تمہارے رب کہ جانب سے تم پر واجب فریضہ ہے۔ اللہ نے جو تم پر فرض کیا ہےاس کی اطاعت کرو۔ (انجام دو) اس نے تمہیں حکم دیا کہ نماز قائم کرو، زکات ادا کرو، ماہ رمضان میں روز رکھو، لوگوں کو نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو، اپنی بیویوں اور زیر نظر افراد کے ساتھ نیکی کرو۔
(من لایحضرہ الفقیہ، ج 1، ص 438)
عید الفطر میں مسلمان پر جو چیز واجب ہے وہ فطرہ کی ادائیگی ہے ، فطرہ دینا جہاں واجب ہے وہیں نبیؐ کی سنت بھی۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے رہتی دنیا تک امت مسلمہ کو جو پیغام عید دیا وہ یہ ہے کہ امت اللہ کی اطاعت کرےاور اس کی نافرمانی نہ کرے۔ جس طرح نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا واجب ہے اسی طرح اسکی بندوں کی خدمت بھی واجب ہے جیسے زکات دینا، نیکی کی ہدایت کرنا، برائی سے روکنا ، زیرنظر لوگوں کے ساتھ نیکی اور احسان بھی واجب ہے۔
امت کے ہادی و پیشوا امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:
اے لوگو! اللہ کی اطاعت کرو ان چیزوں میں جس سے اس نے تمہیں روکا ہے۔ پاک دامن عورت پر زنا کا الزام نہ لگانا، برے کام نہ کرنا، شراب نہ پینا، (بیچتے وقت) کم نہ تولنا، جھوٹی گواہی نہ دینا اور میدان جہاد سے فرار نہ کرنا۔
(وسائل الشیعہ، جلد ۱، صفحہ ۲۲۸)
عید کا دن اطاعت پروردگار کا دن ہے ، نافرمانی کا نہیں ہے اور یہ اللہ کے اطاعت گذار بندوں کی ہی عید ہے جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: عید اسی کی ہےاللہ نے جس کے روزے قبول کئے اور جس کی نماز کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔
(نہج البلاغہ، کلمات قصار ۴۲۸)
امیرالمومنین علیہ السلام نے ان کلمات کے ذریعہ آگاہ کر دیا کہ عید اسی کی ہے جو معبود کی عبادت کرے، اسکی اطاعت کرے اور نافرمانی نہ کرے۔ دنیا یہ نہ سمجھے کہ نافرمانی کا مطلب نماز ترک کرنا، روزہ نہ رکھنا ہی ہے یا شراب پینا ہی ہے بلکہ کسی پاک دامن خاتون کے کردار کو زیر سوال لانا بھی گناہ عظیم ہے، بڑے گناہ کا ارتکاب بھی نافرمانی ہے، کم تولنا ، جھوٹی گواہی دینا اور میدان جہاد سے بھاگنا بھی پروردگار کی نافرمانی ہے ۔ لہذا اگر کوئی کم تول رہا ہے تو وہ صرف خریدنے والے کا گناہگار نہیں ہے بلکہ اللہ کا بھی گناہگار ہے۔ اسی طرح جھوٹی گواہی دینا بھی گناہ ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ عید الفطر کے دن امیرالمومنین علیہ السلام خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا: آج کے دن نیکی کرنے والوں کو ثواب اور گناہ کرنے والوں کو خسارہ (عذاب و عقاب) ہوتا ہے۔ تمہارا یہ دن روز قیامت کی شبیہ ہے۔ گھر سے نکل کر عید گاہ جاتے ہوئے یاد کرو جیسے قبر سے نکل کر بارگاہ معبود میں حاضر ہونے کو، عید گاہ (نماز) میں حاضری کے وقت یاد کرو جیسے بارگاہ معبود میں حاضر ہو۔ عید گاہ سے گھر واپسی کے وقت یاد کرو جیسے بارگاہ خدا سے جنت یا جہنم جانے کو۔ اے اللہ کے بندو! جان لو کہ روزہ دار مرد اور عورت کو جو سب سے کم مرتبہ ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ماہ رمضان کے آخری دن ملک ندا دیتا ہے کہ اے اللہ کے بندو! خوشخبری ہو کہ تمہارے گذشتہ گناہ معاف ہو گئے پس دیکھو، خیال کرو کہ آئندہ کیا کرو گے۔
(روضۃ الواعظین، جلد۲، صفحہ۳۵۴)
بے شک جس طرح قیامت کے دن عدل و انصاف ہو گا ، نیکوکار کو جزا اور گناہگار کو سزا ملے گی۔ اسی طرح روز عید نیک لوگ جزا اور برے لوگ سزا پاتے ہیں۔
مذکورہ روایات سے واضح ہو گیا کہ پہلی شوال عید کا دن ہے ، اللہ نے اپنے نیکوکار بندوں کے لئے اس دن کو عیدکا دن قرار دیا ہے۔اہلبیت علیہم السلام نے بھی اس دن خوشی منائی اور اس دن کو خاص اہمیت دی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ ہم عید نہیں مناتے، عید نہیں منانی چاہئیے اور اس پر مختلف قسم کی قیاس آرائیاں بھی پیش کی جاتی ہیں ۔ سوشل میڈیا کے معرکہ میں مجازی دنیا کے بہادر اپنی بات منوانے کی زور آزمائی بھی کرتے رہتے ہیں کہ مثلا کربلا کے بعد کیسی عید ہے؟
ہم یہاں صرف ایک روایت نقل کرکے اپنی بات کو ختم کرتے ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب (عصر عاشور) امام حسین علیہ السلام کو تلوار لگی اور (ملعون)چاہتا تھا کہ آپ کے سر مبارک کو جسم اطہر سے جدا کرے تو اسی وقت خدا کی جانب سے منادی نے عرش سے ندا دی۔ اے بھٹکی ہوئی، گمراہ اورظالم امت کہ تم اپنے نبیؐ کے بعد ایسے(پست) ہو گئے ہو۔ خدا تمہیں عید فطر اور عید قربان (کے ادراک اور منانے ) کی توفیق نہ دے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم ! ان لوگوں (قاتلان امام حسینؑ) کو اب تک توفیق نہیں ملی اور نہ ہی کامیابی ملے گی یہاں تک منتقم خون حسینی (امام زمانہؑ) قیام کریں۔
روضۃ الواعظین ، جلد ۱، صفحہ ۳۱۸)